تحریر: سکندر علی بہشتی
حوزہ نیوز ایجنسی।انسانی تاریخ میں کربلا کا واقعہ اپنے اہداف و مقاصد کے حوالے سےایک منفرد،عالمگیراور آفاقی درسگاہ وعبرت ناک واقعہ ہے۔ شہید مطہری(رح) کے بقول کربلا کے دوچہرے ہیں ان دو چہروں میں سے ہر ایک اپنی جگہ انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔کربلا کا ایک چہرہ یا رخ اس کا تاریک پہلو ہے۔جہاں تاریخ کے سفاک،ظالم اور انسانی صفات سے عاری شقی ترین افراد کے ہاتھوں ظلم، ستم، قساوت، درندگی،انتقام جوئی اور ہرقسم کے انسانی حقوق کی پائمالی نظر آتی ہے ،پانی کی بندش،ایک چھے ماہہ بچے کو باپ کی گود میں شہید کرنا،پاک ترین انسانوں کے سروں کو تن سے جدا کرنا،بدن پر گھوڑے دوڑانا،سروں کو نیزوں پر چڑھا کر بازاروں اور درباروں میں پھرانا،خیموں کو نذر آتش کرنا،بچوں اور خواتین کو اسیر کر کے بازاروں اور درباروں میں پھرانا، یہ سب کربلا کا غم انگیز اور تاریک پہلو ہیں جن کے انجام دینے والوں میں یزید،ابن زیاد،عمر سعد،شمر جیسے تاریخ کے سفاک ترین افراد شامل ہیں، جو اقتدار، حکومت، مال ودولت اور دنیا کے لالچ میں انسانی اقدار اور انسانیت کی تمام حدود کو پائمال کرتے نظر آتے ہیں۔اس تاریک پہلو پرہر باضمیر اور آزاد انسان کا دل ان مظلوموں کے غم میں خون کے آنسو روتا ہے،آنکھوں سے اشک جاری ہوتاہے اور ان ظالم،شیطان صفت اور بدکردار افراد کے خلاف نفرت کی آگ بھڑک اٹھتی ہے اور ہر شخص ان بدکرداروں سے برائت کا اظہار کرتا ہے یہ اس واقعے کا ایک رخ ہے۔
اس کے مقابلے میں کربلا کا دوسرا چہرہ یا پہلو ہے۔ جہاں امام حسین(ع)ان کے باوفا اصحاب،اہل بیت اور خاندان عصمت و طہارت ہیں،جن میں اعلیٰ اقدار، آزادی، عدالت، شجاعت اور بہادری، ایثار، غیرت،عفت،صبر،اسلام کی پاسداری،حق کی سربلندی اور باطل کی نابودی ،قربانی اور جانفشانی کاجذبہ اوراسلام کی خاطر میدان حق میں ڈٹ جانے کے جذبات واحساسات اپنے اوج پر نظر آتے ہیں۔جہاں ایسے پاک فطرت،خدا پر غیر متزلزل ایمان،اپنے اہداف سے وفادار،امام وقت کی معرفت واطاعت سے سرشار انسان ہیں۔جن کی نگاہ میں خدا کی رضایت،راہ حق میں شہادت اور امام کی محبت ہر چیز پر مقدم ہے۔
امام حسین علیہ السلام نے اپنی شرعی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنے زمانے کے ظالم وجابر نظام کے خلاف قیام کیا اور آپ نے اپنے گہر بار کلمات جیسے «مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا»«ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے»«ذلت ہم سے دور ہے» جیسے آزادی وحریت کے نعرے بلند کرکے زور،طاقت اور مستکبر کے سامنے جھکنے سے انکار کیا، تعداد میں کم ہونے کے باوجود معرفت، احساس ذمہ داری،استقامت اورجرات کی عظیم مثال بن کر ایک ایسے تاریخ ساز واقعے کو وجود میں لایا جو رہتی دنیا تک کے آزاد پسندوں،باضمیر اور عدالت خواہ انسانوں کے لئے مشعل راہ اور نور ہدایت ہے۔
امام حسین علیہ السلام تمام انسانوں کا پیشوا ہیں چاہئے وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتےہوں ۔امام حسین کی شخصیت ،آپ کا پیغام اور سیرت وکردار کسی گروہ،مسلک یا جگہ اور زمانے سے مخصوص نہیں بلکہ ہر زمان ،جگہ پر جہاں قرآن کے دستورات ، سنت رسول اکرم اور اسلام کے آفاقی اصولوں کے پیروکارموجود ہوں۔ سب حسینی قافلہ میں شامل ہیں۔ اس لئے یہ ممکن نہیں کہ کوئی انسانیت کا دعوی کرے لیکن وہ امام حسین(ع) کو نہ مانے، کیونکہ حسین علیہ السلام آخری نبی کا فرزند،وارث رسول،حافظ ومحاظ اسلام ہیں جس کی منزلت،فضیلت اور عظمت سے اسلامی کتب بھری ہوئی ہیں۔ اور حسین(ع) کی زندگی بھی تحفظ اسلام اور قرآن وسنت کی بقا سے عبارت ہے۔ اسلام اور انسانیت کی راہ میں جدوجہد کرنے والوں کا پیشوا حسین(ع)کو ہی ہونا چاہیے۔
عاشورا حقیقت میں کفر ودین،عدل وظلم،حق وباطل اورنور وظلمت کی ابدی جنگ ہے۔ جیسے امام حسین علیہ السلام نے واضح طور پر اعلان فرمایا:«وعلی الاسلام السلام اذقد بلیت الامۃ براع مثل یزید» اسلام کی فاتحہ پڑھ لینا چاہیے جب امت یزید جیسوں کے ساتھ مبتلا ہوجائے۔«انما خرجت لطلب الاصلاح فی امۃ جدی»میں نکل رہاہوں میرے نانا کی امت کی اصلاح کے لئے،
اس کے مقابلے میں یزید کے کفر آمیز جملوں کو تاریخ نے ثبت کیا ہے جس میں انہوں نے پیغمبر کی رسالت،وحی الٰہی کاانکار کیا ہے اور کربلا میں امام حسین(ع) کی شہادت کو جنگ بدر کا بدلہ قرار دیا اور اس سے زیادہ اسلام اور رسالت کا انکار کیا ہوسکتا ہے۔؟
حسین(ع) تمام انسانوں کے پیشوا وامام ہیں اور پیغمبر(ص) کے فرمان کے مطابق حسین(ع) ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہیں۔لہٰذا حقیقی حسینی بھی وہی ہے،جو اسلام کے اہداف کے لئے کوشش کرے، اسلامی اصولوں کی روشنی مٰیں اخوت،بھائی چارگی، ررواداری کی راہ میں جدوجہد کرے۔تمام اسلامی فرقوں کے درمیان مختلف قسم کے اختلافات ایک ناقابل انکار حقیقت ہیں۔مگر محبت واحترام اہل بیت(ع) سب انسانوں کامشترکہ سرمایہ اور میراث ہے۔خصوصاً امام حسین علیہ السلام ایک نکتۂ اشتراک اور انسانوں کو آپس میں جوڑنے والی ہستی ہیں،کیونکہ حسین(ع) کا ہدف و مشن مسلکی ومذہبی اختلافات سے بالاتر ہے۔اور وہ اعلیٰ ہدف اسلام کی بنیادوں اور اصولوں کے لئے خطرات لاحق ہونے کی صورت میں ہرقسم کی قربانی دینے کے لئے تیار رہنا ہے۔حسین(ع) کی راہ ہی اس سلسلے میں ہمارے لئے نمونہ عمل ہے۔
مشہور جملہ’’الاسلام محمدی الحدوث وحسینی البقا‘‘ یعنی اسلام پیغمبر(ص) کے ذریعے دنیا میں پھیلا اور حسین(ع) کے ذریعے اسے بقا حاصل ہوئی۔ یعنی اسلام،قرآن اور رسول اکرم(ص) کی شریعت کے تحفظ کی خاطر جان،مال،عزت،آبرو حتی بچوں وناموس تک کی قربانی دینا حسین(ع) کی سیرت اور کردار ہے۔
حسینیت بھی پرچم اسلام،حق ،قرآن اور سیرت رسول کے سائے میں اپنی زندگی کو امن،محبت اور بھائی چارگی کے ساتھ گزارنے اور ظالم، جابر، اسلام اور انسانی دشمن اور وقت کے فرعونوں کے مقابلے میں علمِ جہاد بلند کرنے کانام ہے،لہٰذا حسین علیہ السلام کو کسی مسلک یاگروہ کے ساتھ مخصوص قرار دینا حسینی پیغام کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔اسی طرح بعض افراد اور گروہوں کی طرف سے یزید جیسے فاسق کے لئے نرم گوشہ بھی دین پیغمبر(ص) کی توہین ہے۔ایسے عناصر کسی بھی مسلکی لباس میں ہوں انہیں بے نقاب کرنا تمام مسالک کے اہل علم وفکر کی ذمہ داری ہے۔اقبال کے بقول آگاہی،شعور اور بیداری اگر امت میں پیدا ہو تو ہر قوم اور ہر انسان حسینی ہوگا۔
انسان کوبیدار تو ہولینے دو/ ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
اس حوالے سے «حسین سب کا »کے عنوان سے گذشتہ سالوں میں جو محافل گلگت بلتستان میں شروع کی گئی تھیں جن میں تمام مسالک کے علما، صحافی،ادبی شخصیات وشعرا نے مل کر حسینی پیغام کو عام کرنے کی کوشش کی لہٰذا اس سلسلے کو مزید بہتر انداز اور پیغام حسینی کے ساتھ تمام مسالک کو مشترکہ طور پر آگے بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔جس میں شیعہ،اہل سنت،اہل حدیث اور نوربخشی تمام مسالک کے علما،دانشور اور صحافی وادبی شخصیات شریک ہوں اور ہر ایک حسینیت کے مسئلے پر مشترکہ پیغام امت مسلمہ اور عالم انسانیت تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات و مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔